پاکستانی فضائیہ کے سابق ایئر مارشل جواد سعید کو حساس ڈیٹا کی منتقلی پر کورٹ مارشل

اسلام آباد – پاکستانی فضائیہ (پی اے ایف) کے ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی امریکہ میں رہائش پذیر ان کے بھائی کو حساس فوجی معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق، یہ معاملہ جنوری 2024 میں اس وقت سامنے آیا جب جواد سعید کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ پی اے ایف کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ الزامات میں میانوالی ایئر بیس پر تعینات جنگی طیاروں کی تفصیلات شامل تھیں، جو قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہیں۔

جواد سعید، جو 1986 میں پی اے ایف میں شامل ہوئے تھے، نے اپنے کیریئر کے دوران متعدد اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، جن میں آپریشنز سے متعلق اعلیٰ سطح کی ذمہ داریاں شامل تھیں۔ وہ 2019 کے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے دوران انتظامی امور کے انچارج تھے، جو بھارتی فضائی حملے کے جواب میں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم، ان کی اہلیہ شازیہ جواد کا دعویٰ ہے کہ یہ کورٹ مارشل دراصل ایک وائٹ پیپر کی وجہ سے ہوا، جس میں موجودہ ایئر چیف کی مبینہ اختیارات کی زیادتی کا ذکر تھا۔ پی اے ایف نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ کارروائی صرف حساس معلومات کی شیئرنگ پر مبنی تھی

گرفتاری کے بعد جواد سعید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا، جو جنوری 2024 کے آخر میں مکمل ہوا۔ ابتدائی طور پر انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی، لیکن اپیل پر اسے 10 سال کم کر کے چار سال کر دیا گیا۔ ابھی تک چیف آف ایئر اسٹاف کو کی گئی رحم کی اپیل کا فیصلہ زیر التوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سزا کے باوجود وہ جیل کی بجائے پی اے ایف افسران کے میس میں زیر حراست ہیں، جسے پی اے ایف نے ایک ذیلی جیل قرار دیا ہے جہاں وی آئی پی سہولیات دستیاب ہیں۔

خاندان کی جانب سے اس معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شازیہ جواد نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) اور لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں متعدد درخواستیں دائر کی ہیں، جن میں کورٹ مارشل کو غیر قانونی قرار دینے، ریکارڈ کی فراہمی اور غیر قانونی حراست کے خلاف اپیل شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقدمے میں انہیں اپنا منتخب وکیل نہیں دیا گیا، چارج شیٹ شیئر نہیں کی گئی، اور خاندانی ملاقاتیں محدود تھیں۔ مزید برآں، پنشن کی بندش سے ان کی خصوصی ضروریات والی بیٹی کی طبی دیکھ بھال متاثر ہو رہی ہے۔ پی اے ایف کا موقف ہے کہ پنشن سزا کی وجہ سے معطل ہے، لیکن بیٹی کے طبی اخراجات حکومت برداشت کر رہی ہے۔

آئی ایچ سی نے مئی 2025 میں کورٹ مارشل کے سابقہ مقدمات کی تفصیلات طلب کیں، جبکہ ایل ایچ سی نے اکتوبر 2024 میں وزارت دفاع کو ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا، جو اب تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کیس فوجی اداروں میں احتساب اور شفافیت کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے، جبکہ پی اے ایف قومی سلامتی کو مقدم قرار دے رہی ہے۔ جواد سعید کے نمائندوں اور پی اے ایف نے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ معاملہ اب بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہے اور اس کے نتائج پر قومی سطح پر بحث جاری ہے