نیپال کے 100 روپیے کے نئے نوٹ پر بھارت برہم، متنازعہ نقشہ شامل کرنے کا الزام

کٹھمنڈو/نئی دہلی – نیپال کی جانب سے جاری کیے گئے 100 روپیے کے نئے نوٹ نے بھارت اور نیپال کے درمیان ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ نئے نوٹ پر چھاپا گیا نقشہ لِپولیکھ، لمپیادھورا اور کالاپانی کے علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھاتا ہے، جن پر بھارت اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس اقدام کو "یکطرفہ” قرار دیتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

نیپال کی مرکزی بینک ‘نیپال راشٹرا بینک’ نے رواں ہفتے 100 روپیے کا نیا نوٹ جاری کیا جس کے پچھلی طرف نیپال کے نقشے میں متنازعہ علاقوں کو شامل کیا گیا ہے۔ نیپال کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نقشہ 2020 میں منظور کردہ نیپال کے نئے سیاسی اور انتظامی نقشے پر مبنی ہے جو ان علاقوں کو نیپال کا حصہ قرار دیتا ہے۔دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو جاری بیان میں کہا کہ "نیپال کی جانب سے مصنوعی طور پر بڑھایا گیا نقشہ نہ تو درست ہے اور نہ ہی قابلِ قبول۔ سرحدی معاملات کے حل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان قائم طریقہ کار موجود ہے، ایسے یکطرفہ اقدامات سے تعمیری ماحول متاثر ہوتا ہے۔”

یاد رہے کہ 2019 میں بھارت نے جموں و کشمیر اور لداخ کو الگ الگ مرکزی انتظام شدہ علاقوں کا درجہ دینے کے بعد نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں کالاپانی، لِپولیکھ اور لمپیادھورا کو بھارتی حدود میں دکھایا گیا تھا۔ اسی اقدام کے ردِعمل میں نیپال نے 2020 میں اپنا نیا نقشہ پارلیمنٹ سے منظور کروایا اور آئین میں ترمیم کر کے ان علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے کرنسی نوٹ پر متنازعہ نقشہ چھاپنا نیپال کی موجودہ کے پی شرما اولی حکومت کا سیاسی پیغام ہے، جو ملکی قوم پرستی کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم اس اقدام سے دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

نیپال کی حکومت نے ابھی تک بھارت کے اعتراض پر سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ بھارتی میڈیا میں اسے "اشتعال انگیز قدم” قرار دیا جا رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ کئی دہائیوں پرانا ہے اور اب تک کوئی مستقل حل نہیں نکل سکا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نئے نوٹ کا معاملہ سفارتی سطح پر مزید کشیدگی بڑھا سکتا ہے۔